حضرت نور قطبِ عالم پنڈوی رحمتہ اللہ علیہ
آپ ہندوستان کے مشہور ومعروف اولیاء میں شمار ہوتے ہیں اور صاحب عشق ومحبت، ذوق وتصرف اور صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ مجھ میں سجّادہ شیخ پر بیٹھنے کی قابلیت نہیں ہے، اس پروہ بیٹھے جو داہنے بائیں نہ دیکھے، آپ کمبل نہیں پہنتے تھے، فرماتے تھے کہ گلیم پوشی اس فقیر کو رواہ ے جو تمام خواہشات نفسانی سے پاک ہو، کوئی شخص اگراپنی حاجت لے کر آپ کے پاس آتا تو پہلے فاتحہ اس کے بعد بعد یہ مصرعہ پڑھتے ؎
”قفل مہمات رافاتحہ آمد کلید“ یعنی فاتحہ مشکل کشا ئی کی چابھی ہے۔
سلطان غیاث الدین بنگال کا بادشاہ آپ کا بڑا معتقدتھا۔ اوراس صوبے کے تمام لوگ آپ کے نیاز مند تھے۔
ایک دن آپ ایک بڑھیا کے مکان پر تشریف لے گئے۔ بڑھیا نے دین کے بارے میں کچھ سوالات کیے، بڑھیا کے گھر سے آپ روتے ہوئے نکلے اور فرمایا کہ میری بخشش اس بڑھیا کے طفیل سے ہو گی۔
آپ فرما تے تھے کہ مشائخ نے سلوک کی تکمیل کے لیے نناوے منازل اسمائے الٰہی کے اعداد کے مطابق قرار دی ہیں۔ پیروں نے پندرہ معین کی ہیں؛لیکن اس فقیر نے صرف تین منازل اختیار کی ہیں۔ اول: حَاسِبُوْا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا یعنی سالک رات دن میں حساب کرے کہ کتنے اعمال نیک اس نے کئے ہیں اور کتنی غفلت ہوئی؟ اور کوشش کرے کہ ہر گھڑی عنایت میں اضافہ ہو اور برائیاں ختم ہوں۔
دوم: من استوى يوماه في الدين فهو مغبون یعنی جس کے دو دن یکساں گذرجائیں اور کارخیر میں پہلے دن سے زیادتی نہیں ہوئی ہوتو وہ نقصان میں ہے۔
سوم: عبادۃ الفقيرففى الخواطر یعنی ہر ساعت دل کا نگراں رہیکہ غیر کا تصوربھی اس میں نہ آئے اور کوئی ساعت ذکر و فکر اور یاد خدا سے خالی نہ ہو اور ہمہ وقت خواب و بیداری میں خدا کی طرف ہی مائل رہے۔
ایک دن حضرت پالکی پر سوار تھے۔ لوگوں کا ہجوم آپ کے ساتھ تھا۔ لوگ عقیدت ومحبت سے آپ کے قدم مبارک کوچومتے تھے۔ یکایک آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا اورروتے روتے بے ہوش ہو گئے، آپ کے مرید خاص حضرت شیخ حسام الدین قریب گئے اور رونے کا سبب پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے اپنی مخلوق کو ہمارے لیے مسخر کردیا ہے وہ ہمارے قدم چومتی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن ہمارا سران کے قدموں سے پامال ہو۔
آپ ۸۰۴ ھ میں اپنے عزیز مرید شیخ حسام الدین مانکپوری کوخرقہ عطا فرمایا اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرماکر قصبۂ مانکپور کا صاحب ولایت بنایا اور رخصت کے وقت وصیت فرمائی کہ”سخاوت میں آفتاب، تواصنع میں پانی، تحمل میں زمین کے مثل رہو،اورجفائے خلق برداشت کرو“۔
آپ اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:
”بیچارہ نورمسکین عمرازشصت گذشتہ تیر از شست جستہ و ازشر نفس یک ساعت نہ رستہ باد بر دست آتش درجگر آب در دیدہ خاک بر سر“
ترجمہ: بیچارہ نور مسکین جس کی عمرساٹھ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تیرکمان کے حلقے سے نکل چکا ہے اور سانس لینے سے ایک لمحہ بھی چھٹکارا نہیں ہے۔ ہاتھ پر ہوا، جگر میں آگ اور سر پرخاک۔
یہ بھی فرمایا کہ:۔
”قرار در ویش دربے قراری عبادت در ویش از غیر حق
یعنی فقیرکا آرام بے چینی میں ہے اورفقیر کی عبادت غیرخدا
بیزاری مشغول بغیر حق گرفتاری ظاہرآراستن بدکاری“
سے بیزاری میں ہے اوراس کے لیے خدا کے سوا کسی جانب لو لگانا قید ہے اور ظاہر کو سنوارنا بُرا کام ہے۔
وفات غالباً۱۰/ذیقعدہ ۸۱۸ ھ کو ہوئی، مادۂ تاریخ وصال ”نور بنورشد“ (۸۱۸)
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972